حضرت خضر علیہ السلام اور آب ِ حیات کی حقیقت تذکرہ
حضرت خضر علیہ السلام کی کنیت ابو العباس اور نام ''بلیا'' اور ان کے والد کا نام ''ملکان'' ہے۔ ''بلیا'' سریانی زبان کا لفظ ہے۔ عربی زبان میں اس کا ترجمہ احمد ہے۔ ان کا لقب ''خضر'' ہے اور اس لفظ کو تین طرح سے پڑھ سکتے ہیں خَضِر، خَضْر، خِضْر۔
خضرکے معنی ہیں سبز چیز ۔ آپ جہاں بیٹھتے تھے وہاں آپکی برکت سے ہری ہری گھاس اُگ جایاکرتی تھی اس لئے لوگ ان کو خضر کہنے لگے۔
یہ بہت ہی عالی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور ان کے آباؤ اجداد بادشاہ تھے۔ بعض عارفین نے لکھا ہے کہ جو مسلمان ان کا اور ان کے والد کا نام اور ان کی کنیت یاد رکھے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ اُس کا خاتمہ ایمان پر ہو گا۔
(صاوی، ج۴،ص۱۲۰۷،پ۱۵،الکہف:۶۵)بحوالہ کتاب عجائب قرآن وغرائب القرآن
تو آپ بھی ہوسکے تو اس کنیت کو ضرور یاد رکھئے گا۔ ابوالعباس بلیا بن ملکان۔
حضرت خضر علیہ السلام حضرت ذوالقرنین کے خالہ زاد بھائی بھی تھے۔ حضرت خضر علیہ السلام حضرت ذوالقرنین کے وزیر اور جنگلوں میں علمبردار رہے ہیں۔ حضرت سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد سے ہیں ۔تفسیر صاوی میں ہے کہ حضرت ذوالقرنین حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے ہاتھ پر اسلام قبول کر کے مدتوں اُن کی صحبت میں رہے اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے ان کو کچھ وصیتیں بھی فرمائیں۔* *(صاوی،ج۴،ص۱۲۱۴،پ۱۶، الکہف:۸۳)*
تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام کا دور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کے فوراََ بعد کا ہی ہے۔*
کیا حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں۔
اس میں کچھ علماء کا اختلاف ہے۔ لیکن کثیر علماء کی یہ ہی رائے ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ بلکہ ان کی ملاقات حضرت موسی علیہ السلام سے بھی ثابت ہے حالانکہ آپکا زمانہ حضرت موسی علیہ السلام سے کئی سوبرس پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کے فوراََبعد کا ہے۔
تفسیر روح البیان میں ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑپوتے ہیں ان کے درمیان اور اور حضر ت موسی علیہ السلام کے درمیانی عرصہ 400 سال کا ہے۔
تو اس لحاظ سے حضرت موسی علیہ السلام حضرت خضر علیہ السلام سے تقریبا 600 سال بعد پیدا ہوئے ۔ واللہ تعالی اعلم
امام بدر الدین عینی صاحب شرح بخاری نے ان کے متعلق لکھا کہ جمہور کا مذ ہب یہی ہے اور صحیح بھی یہی ہے کہ وہ نبی تھے ۔اور زندہ ہیں ۔ (عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری مصنف بدرالدین العینی ۔کتاب العلم،باب ما ذکرفی ذہاب موسی، ج۲،ص۸۴،۸۵)
خدمت بحر(یعنی سمندر میں لوگوں کی رہنمائی کرنا) انہیں کے سپرد ہے اور*
*الیاس علیہ السلام '' بَرّ ''(یعنی خشکی) میں ہیں۔(الاصابۃ فی تمیزالصحابۃ،حرف الخاء المعجمۃ،باب ماوردفی تعمیرہ،ج۲،ص۲۵۲)
اسی طرح تفسیر خازن میں ہے :اکثر عُلَماء اسی پر ہیں اور مشائخِ صوفیہ و اصحابِ عرفان کا اسی پر اتفاق ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام زندہ ہیں شیخ ابو عمرو بن صلاح نے اپنے فتاوٰی میں فرمایا کہ حضرت خضرکثیر عُلَماء و صالحین کے نزدیک زندہ ہیں ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت خضر و الیاس دونوں زندہ ہیں اور زمانۂ حج میں ہر سال ملتے ہیں ۔ یہ بھی اسی میں منقول ہے کہ حضرت خضر نے چشمۂ حیات میں غسل فرمایا اور اس کا پانی پیا۔
اسی طرح تفسیر صاوی میں ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے بھی مشرف ہوئے ہیں۔ اس لئےآپ صحابی بھی ہیں۔ (صاوی، ج۴،ص۱۲۰۸،پ ۱۵، الکہف:۶۵)
اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی ان کی ملاقات ثابت ہے۔اور حضرت خضر علیہ السلام نے ان کو نصیحت فرمائی تھی ۔ کہ اے عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات سے بچنا کہ تو ظاہر میں تو خدا کا دوست ہو اور باطن میں اس کا دشمن ہو کیونکہ جس کا ظاہر اورباطن برابر نہ ہو تو وہ منافق ہوتاہے اور منافقوں کا مقام درک اسفل ہے ۔یہ سن کر عمربن عبدالعزیزرضی اللہ تعالیٰ عنہ اتنا روئے کہ آپ کی داڑھی مبارک تر ہوگئی ۔ (تنبیہ المغترین،الباب الاوّل،مساواتہم السر والعلانیۃ،ص39)*
اور بھی بزرگان دین نے ان سے ملاقات کا ذکر ہے۔واللہ تعالی اعلم
آب حیات کی حقیقت:۔
آب حیات کے متعلق بہت اختلاف ہے۔ بعض لوگ اس کو ایک افسانے کے علاوہ کچھ نہیں کہتے ۔ کیونکہ آب حیات کا تذکرہ نہ قرآن میں ہے نہ ہی کسی صیحح حدیث میں۔
ہاں کچھ علماء کرام نے اس کا ذکر اپنی تفسیر میں حضرت ذوالقرنین کے پہلے سفر کے ذمرے میں کیا ہے۔
جیسا کہ تفسیر خزائن العرفان پ۱۶، الکہف: ۸۶تا ۹۸ میں نقل ہے۔حضرت ذوالقرنین نے پرانی کتابوں میں پڑھا تھا کہ سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک شخص چشمہ ء حیات سے پانی پی لے گا تو اس کو موت نہ آئے گی۔ اس لئے حضرت ذوالقرنین نے مغرب کا سفر کیا۔ آپ کے ساتھ حضرت خضر علیہ السلام بھی تھے وہ تو آب ِ حیات کے چشمہ پر پہنچ گئے،، اور اس کا پانی بھی پی لیا مگر حضرت ذوالقرنین کے مقدر میں نہیں تھا، وہ محروم رہ گئے۔ اس سفر کے دوران آپ جانب مغرب روانہ ہوئے تو جہاں تک آبادی کا نام و نشان ہے۔ وہ سب منزلیں طے کر نے کے بعد آپ ایک ایسے مقام پر پہنچے کہ انہیں سورج غروب کے وقت ایسا منظر آیا کہ وہ ایک سیاہ چشمہ میں ڈوب رہا ہے۔ جیسا کہ سمندری سفر کرنے والوں کو آفتاب سمندر کے کالے پانی میں ڈوبتا نظر آتا ہے۔ وہاں ان کو ایک ایسی قوم ملی جس نے جانوروں کی کھال پہنے رکھی تھی۔ ا س کے سوا کوئی دوسرا لباس ان کے بدن پر نہیں تھا اور دریائی مردہ جانوروں کے سوا ان کی غذا کا کوئی دوسرا سامان نہیں تھا۔ یہ قوم ''ناسک''کہلاتی تھی۔ حضرت ذوالقرنین نے دیکھا کہ ان کے لشکر بے شمار ہیں اور یہ لوگ بہت ہی طاقت ور اور جنگجو ہیں۔ تو حضرت ذوالقرنین نے ان لوگوں کے گرد اپنی فوجوں کا گھیرا ڈال کر ان لوگوں کو بے بس کردیا۔ چنانچہ کچھ تو مشرف بہ ایمان ہو ئے کچھ آپ کی فوجوں کے ہاتھوں مقتول ہو ئے۔
اسی طرح تفسیر خازن اور شیخ ابو عمرو بن صلاح نے اپنے فتاوٰی میں لکھاہے کہ حضرت خضر اور الیاس جمہور عُلَماء و صالحین کے نزدیک زندہ ہیں ،اور ہر سال زمانۂ حج میں ملتے ہیں ۔ اور یہ کہ حضرت خضر علیہ السلام نے چشمۂ حیات میں غسل فرمایا اور اس کا پانی بھی پیا۔
بس آب حیات یا چشمہ حیات کی اتنی حقیقت ہی کتب میں لکھی ہے۔مگر اصل حقیقت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
قرآن کہتا ہے پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خادم حضرت "یوشع بن نون” کے ساتھ سفر شروع کیا اور حضرت یوشع سے کہنے لگے” میں ہمیشہ چلتا رہوں گا، کبھی رکوں گا نہیں یہاں تک دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پہنچ جاؤں۔ حضرت یوشع بن نون سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے صحابی اور ان کی وفات کے بعد ان کے جانشین ہوئے ۔
ان دونوں صاحبان کے سفر کاذکر قرآن مجیدمیں یوں بیان ہوا ہے ترجمہ : "جب موسیٰ نے اپنے خادم سے کہا؛ میں تو چلتا ہی رہوں گا یہاں تک کہ دو دریاؤں(مجمع البحرین) کے ملنے کی جگہ پہنچ جاؤں، خواہ مجھے سالہا سال چلنا پڑے” (سورہ کہف، آیت نمبر60)
یہاں لفظ "حقب”استعمال ہوا ہے جس کا ایک مطلب 70 یا 80 سال ہے اور دوسرا مطلب غیر معینہ مدت ہے، یعنی موسیٰ علیہ السلام نے کہا اگر مجھے 70 یا اسی سال یا غیر معینہ مدت تک ہی کیوں نہ چلنا پڑے، میں چلتا رہوں گا۔ رکوں گا نہیں یہاں تک اس جگہ پہنچ جاؤں جہاں حضرت خضر سے ملاقات ہو۔
موسیٰ (علیہ السلام) یہ سفر محض اس لیے کر رہے تھے تاکہ حضرت خضر (علیہ السلام) سے علم حاصل کرسکیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علم حاصل کرنے کیلئے چاہے جتنا دور جانا پڑے جانا چاہیے مگر علم ضرور حاصل کرنا چاہیے۔
یہ بھی یاد رہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو اس سفر کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ انہوں نے ایک سائل کو کہہ دیا تھا کہ مجھ سے بڑا کوئی عالم نہیں ہے۔ اللہ عزوجل کو علم پر تکبرکرنے والا یہ جملہ پسند نہیں آیا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ عزوجل سے دریافت کیا کہ اے اللہ کیا مجھ سے بڑا بھی کوئی عالم اس دنیا میں موجود ہے تو اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حضرت خضر (علیہ السلام) کا پتا بتایا۔
حضرت موسیٰ اور یوشع بن نون چلتے رہے، جب دو ریاؤں کے درمیان پہنچے گئےتو وہاں آرام کے لیے رک گئے، جب وہ آرام کے لیے سوگئے تو ان کے تھیلے میں موجود مردہ مچھلی کو اللہ (عزوجل) نے زندہ فرما دیا اور وہ مچھلی سرنگ بناکر اپنا راستہ خود بناتی ہوئی دریا میں چلی گئی۔ "پھر جب وہ دونوں ان دریاؤں کے ملنے کی جگہ پہنچے اپنی مچھلی بھول گئے اور اس (مچھلی) نے سمندر میں اپنی راہ لی سرنگ بناتی”۔(کہف؛61)اللہ قرآن پاک میں فرماتا ہے؛ ترجمہ: "بولا بھلا دیکھئے تو جب ہم نے اس چٹان کے پاس جگہ لی تھی تو بےشک میں مچھلی کو بھول گیا اور مجھے شیطان ہی نے بھلا دیا کہ میں اس کا مذکور (ذکر) کروں اور اس نے تو سمندر میں اپنی راہ لی اچنبا (عجیب بات) ہے موسیٰ نے کہا یہی تو ہم چاہتے تھے تو پیچھے پلٹے اپنے قدموں کے نشان دیکھتے تو ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ پایا جسے ہم نے اپنے پاس سے رحمت دی اور اسے اپنا علم لدنی عطا کیا” ۔ (کہف؛آیت 63-65)
علم لدنی کیا ہے؟ یہ باطن کا علم ہے جو اللہ (عزوجل) نے خصوصاََ حضرت خضر (علیہ السلام) کو عطا فرمایا یہاں تک کہ اپنے نبی موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی کہا کہ خضر آپ سے زیادہ علم والے ہیں۔ علم لدنی وہ علم ہے جو بغیر کسی ظاہری سبب کے خودبخود قلب (دل) میں من جانب اللہ آتا ہو۔ اسے علم ربانی،علم عطائی یا علم وہبی بھی کہتے ہیں۔ امام غزالی فرماتے ہیں لدنی وہ علم ہے جس کے حصول میں نفس اور حق تعالیٰ کے درمیان کوئی واسطہ نہ ہو، علم لدنی بمنزلہ روشنی کے ہے کہ سراج غیب سے قلب صاف و شفاف پر واقع ہوتی ہے، اس سے پہلے کہ ہم واقع کی طرف بڑھیں، پہلے جان لیں کہ خضر ہے کون؟حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مطابق : جب موسیٰ (علیہ السلام) اور یوشع بن نون واپس اس جگہ پہنچے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھا کہ ایک شخص سفید چادر اوڑھے آرام فرما رہا ہے۔ آپ سمجھ گئے یہی خضر ہے، آپ نے قریب آکر سلام عرض کیا۔ خضر نے کہا آپ کے سر زمین میں سلام کہاں؟ فرمایا میں موسیٰ ہوں۔ خضر نے کہا بنی اسرائیل کا موسیٰ ؟ فرمایا جی ہاں۔
پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت خضر (علیہ السلام) سے کہا : کیا میں آپ کی اطاعت اس شرط پرکروں کہ اللہ (عزوجل) نے جو علم آپ کو سکھایا ہے وہ آپ مجھے بھی سکھائیں گے۔ خضر (علیہ السلام) نے کہا اے موسیٰ ! آپ میرے ساتھ ہرگز صبر نہیں کرسکیں گے اور آپ صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں جبکہ آپ کے علم میں وہ شامل ہی نہیں جو میں جانتا ہوں۔
حضرت خضر (علیہ السلام) نے یہ اس لیے فرمایا کہ وہ جانتے تھے کہ انبیاء امور منکرہ اور ممنوعہ دیکھنے پر صبر کر ہی نہیں سکتے کیونکہ انبیاء کی شریعت میں ایسے کام کرنے سے سختی سے منع ہوتا ہے۔
حدیث میں آتا ہے: حضرت خضر (علیہ السلام) نے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا؛ ” ایک علم اللہ (عزوجل) نے مجھے ایسا عطا فرمایا ہے جو آپ نہیں جانتے اور ایک علم آپ کو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا عطا فرمایا ہے جو میں نہیں جانتا۔
مفسرین کہتے ہیں کہ جو علم حضرت خضر علیہ السلام کو عطا ہوا وہ باطن یا مکاشفہ کا علم (علم ِلدنی) ہے اور جو علم حضرت سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو عطا ہوا وہ علم شریعت ہے
یوشع بن نون کے بارے میں کہا جاتا ہےکہ ان کا انتقال استنبول میں ہوا اور انکی قبرمبارک استنبول کےبا سفورس مجمع البحرین کے قریب ہے۔
مزید پڑھیں: ہر پریشانی اور جائز مقصد کیلئے یہ وظائف اورتعویزمفت استعمال کریں
مزید پڑھیں: سامان، گاڑی، مکان یا کوئی بھی چیز جلدی بیچنے کا وظیفہ
مزید پڑھیں: کالے جادو، آسیب اور نظرِ بد کی کاٹ کا تعویز اور وظیفہ
مزید پڑھیں: بالوں اور چہرے کی خوبصورتی کیلئے میتھی کا استعمال
مزید پڑھیں:بال لمبے اور گھنے کرنے کا سب سے آسان نسخہ
مزید پڑھیں:حضرت خضر علیہ السلام اور آبِ حیات کی حقیقت
مزید پڑھیں: امیر ہونے کا تعویز
مزید پڑھیں:یہ چند دانے پانے کے ساتھ کھائیں اور بیحد فائدہ اٹھائیں
مزید پڑھیں:اسلام اور شبِ عروسی کے آداب اور طریقہ کار
No comments:
Post a Comment